Monday, June 20, 2011

شمالی تنزانیہ کا ایک یادگار سفر



حصہ 2
گورنگورو کریٹر جو کہ ورلڈ ہیرٹیج سائیٹ بھی ہے۔ اپنے متوازن ایکو سسٹم اورموسم کی وجہ سے بعض نامور سیاحوں کے مطابق یہ ایک اپنی طرز کا اس دنیا میں گارڈن آف ایڈن اور قدرت کا انمول شاہکار ہے۔

پہاڑ کی بلندی سے کریٹر کے فرش تک تقریباؐ ایک گھنٹے کی ڈرائیونگ کے دوران میں نے اس کنزرویشن ائریا کی تاریخ اپنے ساتھ لائے ایک کتابچے میں  پڑھی۔ جس کے مطابق لفظ "گورنگورو"  مسائی قبیلے سے مختص ہے۔ اٹھارہویں صدی کی شروعات میں مسائی قبیلے کے جنگجو جوانوں نے یہ جگہ اپنے مخالف قبیلے "ڈاٹونگ" سے جنگ کر کے حاصل کی تھی اور اب تک گورنگورو اور مسائی لازم و ملزوم ہیں۔

ہزاروں سال پرانی تہذیب اور ثقافت کے علمبردار یہ مسائی قوم قدرتی جانباز سپاہی ہوتے ہیں۔ اپنی زمین، مال و مویشی کی حفاظت خوب جانتے ہیں۔ اس جگہ سے ان کی انسیت کا یہ حال ہے کہ کریٹر کی دیواریں اور فرش کے نام بھی انہیں کے دیئے ہوئے ہیں اسی وجہ سے اس علاقے میں جنگلی جانوروں کے ساتھ کہیں کہیں مسائی چرواہے بھی اپنے مویشی چراتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

چھہ فٹ سے نکلتا قد، بانس کی لکڑی کی طرح سیدھی کاٹھ اور اپنے مخصوص سرخ لباس میں مسائی مرد و عورت اپنی پہچان دور ہی سے کروالیتے ہیں۔ ان کی سب سے قیمتی متاع ان کے مویشی ہوتے ہیں۔ جن کو وہ اپنی اولاد کی طرح پالتے ہیں۔ ان کے مویشی کے بارے میں مشہور ہے کہ شیر بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور دور ہی دور  سے ان کا دیدار کر کے اپنے راستے کو ہولیتا ہے۔

کریٹر میں پہنچ کر سب سے پہلے ہم نے ایک جگہ زیبروں کے جھنڈ کے بیچ کچھ گائیوں کو بھی چرتے دیکھا۔ کچھ ہی دور دو تین مسائی لڑکے جو کہ ان گائیوں کے رکھوالے تھے نظر آئے۔ میں نے ابو سے ایک دم ان مسائی لڑکوں کے انٹرویو کی فرمائش کردی۔ ابو نے ایک سائیڈ پر گاڑی روک کر انہیں اشارہ کیا تو وہ اس طرف چلے آئے۔ آتے ہی فل انگریزی زبان میں ہم سے ہائی ہیلو کرنے لگے  اور پوچھنے لگے کہ ہم کہاں کے ہیں۔ ہم حیران کہ یہ اتنی اچھی انگریزی کیسے بول لیتے ہیں لیکن پھر خیال آیا کہ برسوں سے یہ علاقہ سیاحت میں ساری دنیا میں مشہور ہے۔ ہر سال لاکھوں سیاح اس جگہ کی سیر کو آتے ہیں اور انگریزی زبان سے مانوسیت اسی وجہ کا نتیجہ ہے۔ جب ہم نے بھی  لوکل لوگوں کی طرح انہیں سواہیلی میں ہیلو کہا تو اب حیران ہونے کی ان کی باری تھی۔

ان مسائی کے مطابق وہ کچھ مخصوص جڑی بوٹیاں پیس کر اپنے مویشی کے کھالوں پر ملتے ہیں کہ کوئی بھی جنگلی جانور ان پر حملہ نہیں کرتا۔ اس کے ساتھ انہوں نے کریٹر سے باہر اپنے گاؤں کی سیر کی بھی دعوت دی۔ یہ گاؤں صرف سیاحوں کے لئے خاص طور پر بنوایا گیا ہے تاکہ مسائی کے گھر"بوما" اور ان کی روز مرہ کی زندگی کے بارے میں معلومات حاصل ہو سکے۔ وہاں یہ سیاح مسائی لباس اور ان کے گھروں میں انہیں کی طرح بیٹھ کر تصویریں بنواتے ہیں۔ ان تصویریں بنوانے کے اچھے خاصے پیسے لگتے ہیں جو ڈالرز اور شیلنگس کی شکل میں ان لوگوں کی آمدنی کا ذریعہ بنتے ہیں۔

اسی جگہ سے ہم نے گائیڈ کی خدمات حاصل کیں اور آگے بڑھے۔ گائیڈ کو دیکھتے ہی حنا نے سب سے پہلا سوال یہ پوچھا کہ "میں نے سنا ہے کہ یہاں کے شیروں میں تین یا چار ننھے ننھے مزید شیروں کا اضافہ ہوا ہے۔" گائیڈ حنا کا تجسس دیکھ کر مسکرادیا اور بولا۔ "چلو میں سب سے پہلے وہیں لے کر چلتا ہوں"۔ وہ ابو کو ٹریک نمبرز اور راستے کی پہچان کروانے لگا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ اکثر شیر جس جگہ آرام کرتے ہیں وہ اونچی جھاڑیوں کی بیچ کھلی جگہ ہوتی ہے۔ ان جھاڑیوں کا رنگ اور شیر کی کھال کا رنگ ایک ہی جیسا ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کی جاء پناہ ڈھونڈنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ وہ سیدھا اسی جگہ پر لے گیا جہاں کچھ شیرنیاں اپنے چند نوزائیدہ بچوں سمیت آرام کر رہی تھیں۔ شیرنیاں لمبی تان کر سوئی تھیں جب کہ بچے قریب ہی کھیل رہے تھے۔لیکن وہ وقفے وقفے سے ایک آد نظر اپنے کھیلتے ہوئے بچوں پر بھی ڈال رہی تھیں۔





 اس جگہ پر  سیاحوں کی کئی گاڑیاں پہلے ہی کھڑی تھیں جن میں موجود بہت سے خاموشی سے دھڑا دھڑ فوٹو کھینچنے اور مووی بنانے میں مشغول تھے۔ ایسی جگہوں پر شور کرنا حتی بلند آواز سے بات تک کرنے کی ممانعت ہے کہ کوئی بھی جانور کسی وقت بھی آوازوں سے ڈر کر بدک سکتا ہے اور سیاحوں کے لئے خطرہ بن سکتا ہے۔ مجھے اس بات پر حیرت ہوئی کہ وہاں صرف شیرنیاں ہی موجود تھیں اور شیر کہیں بھی نظر نہیں آرہے تھے۔ میرے استفسار کرنے پر گائیڈ نے بتایا کہ جب بچے بہت چھوٹے ہوتے ہیں تب شیرنیاں ان کی حفاظت کی خاطر شیروں کو بھی قریب پھٹکنے نہیں دیتیں جب تک کہ بچے کچھ بڑے نہ ہوجائیں۔ اس ٹریک سے واپسی کے دوران بھی کچھ اور شیرنیاں سیاحوں کی گاڑیوں کے آس پاس منڈلاتی نظر آئیں۔ گائیڈ کے مطابق یہاں کے جانور ان گاڑیوں کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ اب ان سے ڈرنے کے بجائے ان کی موجودگی سے پرتجسس ہوجاتے ہیں اور کچھ تو گاڑیاں دیکھتے ہی ان کے بہت قریب آجاتے ہیں۔  ایسی صورت میں بہرحال احتیاط کا تقاضہ یہ ہے کہ شیشہ بند رکھا جائے اور حتی الامکان محفوظ فاصلہ برقرار رکھا جائے۔
  
حنا کی فرمائش پوری کرنے کے بعد میں نے ہیپو(دریائی گھوڑے) کا پول دیکھنے کی بات کی۔ تو گائیڈ نے کہا کہ یہ مناسب آئیڈیا ہے۔ وہاں پکنک اسپاٹ بھی ہے اور آپ کھا پی کر کچھ دیر وہاں سستا بھی سکتے ہیں ۔یہ جگہ کریٹر کے دوسرے سرے پر واقعہ تھی اور ایک لمبے خشک اور دھول اڑاتے راستے سے ہوتے ہوئے جب ہیپو پول تک پہنچے تو تھکن سے چور ہو چکے تھے۔ لیکن اس جگہ کو دیکھتے ہی ایسا محسوس ہوا جیسے صحرا کے بعد نخلستان میں نکل آئے ہوں۔ موسم سرد اور خشک ہورہا تھا اور چہرے دھول مٹی سے اٹے ہوئے تھے۔ ہم قریبی موجود غسلخانوں سے فیضیاب ہوئے اور پول کی طرف چل پڑے۔

اس چھوٹی سی جھیل کے بیچوں بیچ میگا سائز دریائی گھوڑے آنکھیں بند کئے سستا رہے تھے۔ ہاتھی اور رائنو کے بعد بڑے جانوروں میں ہیپو کا نمبر آتا ہے۔ یوں تو یہ جانور شریف النفس ہیں اور دن میں پانی سے باہر کم ہی نظر آتے ہیں تاہم  خلاف مزاج ڈسٹرب ہونے پر انتہائی خطرناک بھی ثابت ہوتے ہیں۔ ایک سو اسی ڈگری کے زاویئے تک اپنا پورا منہ کھول سکتے ہیں اور عموماؐ مقابل ایک دو وار میں ہی ڈھیر ہوجاتا ہے۔ اسی وجہ سے مگرمچھ کی قوم اس سے اجتناب برتتی ہے۔ یہاں ہم نے اپنے ساتھ لائے ہوئے پکنک لنچ سے پورا انصاف کیا۔ لنچ کے بعد امی ابو تو کچھ دیر جھیل کے کنارے آرام کرنے کی غرض سے بیٹھے رہے جب کہ ہم بھائی بہن آس پاس کا علاقہ چھاننے لگے۔ یہاں ہم نے جگہ جگہ مردہ جانوروں کی کھوپڑیاں اور ڈھانچے دیکھے۔ کچھ دور جھاڑیوں سے کچھ ببون (بندر کی ایک قسم) جھانکتے نظر آئے جو یقینا کھانے کی چیزوں کی لالچ میں ہماری طرف دیکھ رہے تھے۔ ۔ انہیں جھاڑیوں میں کچھ رنگ برنگی تتلیاں بھی نظر آئیں۔ ہم شاید کچھ اور آگے نکل جاتے لیکن ابو کے پکارنے پر واپس پلٹ آئے۔

آگے کا سفر ہم نے لیک مگاڈی کی طرف کیا۔ یہ جھیل گورنگورو کریٹر کا تاج سمجھی جاتی ہے۔ اسے سوڈا لیک بھی کہا جاتا ہے۔ آبی پرندوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے علاوہ یہ جھیل کریٹر کے سارے جانوروں کی آبی ضروریات بھی پوری کرتی ہے۔ دور سے دیکھنے پر جھیل کا رنگ درمیان سے نیلا اور ساحل کے قریب سے گلابی نظر آتا ہے مگر قریب جاتے ہوئے یہ گلابی رنگ بتدریج خدوخال لیتا  ہوا بے شمار گلابی فلیمنگوز میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ یہ دلچسپ حیرت بھرا منظر یقینا سیاحوں کے لئے ایک انوکھا تحفہ ہوتا ہے۔




       
 جھیل سے واپسی کے سفر میں کچھ دلچسپ مناظر کا سامنا ہوا۔ ایک شکار کئے ہوئے زیبرے کے بچے کھچے مردار سے کچھ گدھ لطف اندوز ہورہے تھے۔ ایک شیر اور شیرنی کھلے عام سماج کی پرواہ کئے بغیر عشق و عاشقی میں ڈوبے نظر آئے۔ ایک بوڑھا نر ہاتھی اپنے طویل قامت اور کئی ٹن وزن کے ساتھ گاڑیوں کے بالکل قریب سے گزرتا ہوا ایسا لگ رہا تھا جیسے ایک بدمست موبائل پہاڑ ہو۔ صرف چند  فٹ کے فاصلے پر دنیا کے سب سے بڑے جنگلی جانور کو دیکھنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔ یہ خدا کی ایک ایسی مخلوق ہے جواپنی بزرگی اور اپنی ٹھنڈی فطرت کے باوجود اشرف المخلوقات کے ہاتھوں ایسی بربریت کی حقدار ٹھہری جس کی انسانی تاریخ میں بہت کم مثال ملتی ہے۔ افریقن بلیک رائنو جو اب عام طور پر مفقود ہوچکے ہیں۔ صرف چند ایک جو باقی ہیں وہ یہاں کریٹر میں بہت ڈھونڈنے پر نظر آتے ہیں لیکن ہمیں اسے سلسلے میں کامیابی میسر نہ آ سکی۔

شام کے گہرے ہوتے سائے اور ہرنوں زیبروں کے غول کی جھیل سے واپسی کا سفر ہمارے لئے اشارہ تھا کہ یہ ان کے آرام کا وقت ہے اور سارے دن ہزاروں سیاحوں اور گاڑیوں کی آمدورفت، ان سے نکلتے دھوئیں اور شور، ماحولیاتی آلودگی اور سب سے بڑی بات ان کے علاقے کی ٹریس پاسنگ کے بعد یہ ان کا پورا پورا حق بنتا ہے کہ اب انہیں اکیلا چھوڑ دیا جائے۔ اسی وجہ سے کریٹر کے اصول کے مطابق شام چھے بجے تک یہ جگہ خالی کردی جاتی ہے۔ لہذا ہم بھی اس سفر کی خوشگوار یادیں دل کے ساتھ کیمرے میں بسائے واپسی کی راہ پرچل دیئے۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


Sunday, June 19, 2011

شمالی تنزانیہ کا ایک یادگار سفر


حصہ اول

صبح کے ساڑھے نو بجے تھے۔ سب ابھی ناشتے سے فارغ ہی ہوئے تھے اور ابھی رات کی چیزوں کی پیکنگ کرنا باقی تھی۔ مگر میں بالکل تیار کھڑی تھی اور سخت بے چینی سے ان سب کا ناشتے اور پیکنگ ختم ہونے کا انتظار کررہی تھی۔ "بس منزل اب تھوڑی ہی دور ہے" دل بار بار کہہ رہا تھا مگر اس بےچینی کو میں کیسے کنٹرول کروں جو وہاں پہنچنے کی ہے۔ ابو جانی شاید کافی دیر سے مجھے اندر باہر آتے اور سب کی پیکنگ کی رفتار پر نظر ڈالتے دیکھ چکے تھے۔ میں بور ہوکر ہوٹل کی بالکونی میں جاکھڑی ہوئی۔ دور بہت دور مجھے گور-ن-گورو کے پہاڑ نظر آرہے تھے۔ میں انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی وہ مجھ سے آنکھ مچولی کھیل رہے تھے کبھی بادلوں میں گھر جاتے۔ کبھی ایک دم صاف صاف نظر آنے لگتے۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ میں یعنی میں خود انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہوں کسی فوٹوگراف یا دستاویزی فلم میں نہیں۔ یہی تو میرا خواب تھا ایک عرصے سے کہ میں قدرت کے اس انمول نمونے کو اپنی آنکھوں سے دیکھوں۔ 


 میں نے اپنے قریب کسی کی موجودگی محسوس کی، مڑ کر دیکھا تو ابو جانی بھی دونوں ہاتھ اپنے خاکیز میں ڈالے ان پہاڑوں کو تک رہے تھے۔ مجھے اپنی طرف دیکھتا ہوا دیکھ کر مسکرا دیئے۔ پھر میرے قریب آکر کہا۔ "عینی تمہیں پتہ ہے اس وقت جو تمہارے احساسات ہیں اور ان پہاڑوں کو دیکھ کر جو تمہاری کیفیت ہے۔ وہ میں اچھی طرح سمجھ سکتا ہوں۔ تم کیوں اتنی بے چین ہو اور تمہیں وہاں پہنچنے کی اتنی جلدی کیوں ہے۔"

 
میں شرمندہ ہوگئی۔ پھر بولی " ابو جانی بس میں ایکسائٹڈ ہوں اور وہاں اس لئے جلدی پہنچنا چاہتی ہوں تاکہ زیادہ وقت ہم اس قدرت کے شاہکار کے دامن میں گزار سکیں۔" ابو میری کیفیت سمجھتے ہوئے نرمی سے مسکرائے اور کہا " بیٹا جی جب میں تمہاری عمر کا تھا تب مجھے بھی ایسی ہی بے چینی رہا کرتی تھی۔ تب میں پہاڑوں اور سرسبز وادیوں میں نکل جایا کرتا تھا پھر جا کر مجھے کچھ چین ملتا تھا۔ تم نے بھی میری طبیعت پائی ہے۔ چلو میں تم کو آج ایک پتے کی بات بتاتا ہوں۔" میں ہمہ تن گوش ہوگئی۔


وہ بولے۔ " کالج میں جب ہم یہاں اسکاوٹس گروپ کے ساتھ آئے تھے۔ تب ہمارے گائیڈ نے ہمیں یہ کہا تھا کہ صرف منزل تک پہنچنا ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔ بلکہ منزل تک پہنچنے کے راستے سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ ان راستوں کا ایک ایک پتھر، ایک ایک کھائی منزل کا پتہ دیتی ہے اور جب ہم ان راستوں کو سر کر رہے ہوتے ہیں تو بعض اوقات ہم ان کے سحر میں اتنا کھو جاتے ہیں کہ وہ خود ہی منزل بن جاتے ہیں۔" انہوں نے میری طرف دیکھا۔ میں نے ان کی بات سمجھتے ہوئے گردن ہلادی۔ میں ابو جانی کے ساتھ اندر آگئی اور پیکنگ میں ہاتھ بٹانے لگی۔اب میں ریلیکس ہوکر اس سارے کام کو انجوائے کر رہی تھی۔


اور جب راستے شروع ہوئے۔۔ ۔ ۔ اف ابو نے سچ کہا تھا۔ اونچے نیچے پرخطر راستے ۔کبھی سانپ کی طرح ٹیڑھے میڑھے نظر آتے۔ جن کے سرے پر کبھی پہاڑ تو کبھی گہری کھائیاں۔ کہیں آبشار تو کہیں پگڈنڈیاں۔ ہرے بھرے سر سبز و شاداب۔ آنکھوں کو معطر کرتے ہوئے راستے ۔ میں ان کی خوبصورتی میں کھو گئی۔ "ہاں یہ راستے اتنے خوبصورت ہیں تو منزل کتنی حسین ہوگی"۔


ابو بڑی مہارت سے لینڈ کروزر چلا رہے تھے۔ "اب چڑھائی شروع ہورہی ہے۔ یہاں سے راستہ کافی دشوار ہیں اور بارش میں تو پھسلن کی وجہ سے بہت خطرناک بھی ہوجاتا ہیں۔" ابو نے عام سے انداز میں بتایا۔ لیکن امی ڈر گئیں اور سب کو درود شریف پڑھنے کی تاکید کی اور خود بھی پڑھنے لگیں۔ جوں جوں اونچائی کی طرف سفر رواں دواں تھا توں توں راستے زیادہ تنگ اور پرخطر ہوتے جارہے تھے۔ اور موسم بھی پہلے خوشگوار سے ٹھنڈا اور پھر شدید سردی کی لپیٹ میں آگیا۔ ابو نے فوگ لائٹس آن کی اور بہت آہستہ رفتار سے آگے بڑھنے لگے۔ شکر ہے کہ بارش نہیں تھی مگر فوگ نے مشکل پیدا کی ہوئی تھی خاص طور پر سڑک کے تنگ ہونے اور سامنے آنے والی گاڑی نظر نہ آنے کی وجہ سے۔ سڑک کے ایک سرے پر بلندی تو دوسرے پر گہری کھائیاں تھیں۔ کچھ لمحے خاموش اور ٹینس حالت میں گزرے۔ سب اپنے جیکٹوں میں دبک کر فوگ چھٹ جانے کی دعا کرنے لگے کہ اچانک مطلع ایک دم صاف ہوگیا ۔ آگے کا کچھ راستہ بالکل صاف تھا۔ اور ہمیں دور سے ہی چیک پوسٹ نظر آنے لگی۔


یہاں ہم نے گاڑی کو پہاڑ کے اندر یعنی کریٹر میں داخل ہونے کی فیس ادا کی۔ اور مزید اونچائی پر چڑھنے لگے۔ اب یہاں یہ حال تھا کہ کہیں ہم بادلوں سے اوپر ہوتے اور کہیں بادل ہمارے بالکل اوپر ہوتے کہ ہاتھ بڑھا کر چھو سکتے۔ کچھ آگے جاکر سیدھا راستہ آگیا اور چڑھائی ختم ہوگئی۔ کچھ دور ایک بورڈ لگا ہوا تھا اس کے قریب ابو نے گاڑی روک دی ہم سب کچھ نہ سمجھتے ہوئے باہر نکلے۔ ابو نے کہا کہ جا کر اس بورڈ کو پڑھو۔ ہم سب بورڈ کے پاس دوڑے اس پر لکھا تھا کہ ہم پہاڑ کی بلندی پر پہنچ چکے ہیں اور یہ کریٹر کا ویو پوائنٹ ہے۔ ہم بھائی بہنوں نے کچی سڑک کے کنارے پر دوڑ لگائی اور نیچے جھانکا ۔لیکن یہ کیا!۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نیچے فوگ کہہ لیں یا بادل،سارا کریٹر جیسے بادلوں کے ڈھکن سے ڈھانپ دیا گیا ہو۔ کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ مگر یہ منظر بھی ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ایسا لگ رہا تھا ہم پانچ انسان بمعہ ہماری گاڑی بادلوں کے اوپر کہیں معلق ہیں۔ اپنے ہونے کا یقین سردی سے منہ سے نکلتی ہوں بھاپ سے ہو رہا تھا۔


میں تین ملین سال پرانے آتش فشاں کے سر پر کھڑی تھی جو کبھی شاید اتنا ہی بلند ہوا کرتا تھا جتنی کہ افریقہ کی بلند ترین چوٹی اور ہونا تو یوں چاہیئے تھا کہ بھپڑ کر پھٹتا مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا اسے یہاں ایک ایسی دنیا بسانی تھی جس میں سارے قدرتی وسائل موجود ہوں جو اس کی مخلوق کے لئے ایک "سیف ہیون" کا کام بھی انجام دے۔ جہاں دشمن کی موجودگی اور غذا اور پانی کے فقدان کا ڈر نہ ہو۔ لہذا عساء موسی کے معجزے کی مانند زمین پھٹی اور شگاف بنا پھر زمین نے وہ بھپڑتا ابلتا ہوا لاوا باہر پھینکنے کے بجائے اپنے دامن میں سمیٹنا شروع کیا اور غرور سے اٹھی اس بلند و بالا چوٹی نے کسی بوڑھے ضعیف کی کمر کی طرح جھکنا شروع کیا یہاں تک کہ درمیان سے بالکل ہی ڈھے گئی۔ اور نتیجتاً قدرت کا یہ شاہکار وجود میں آیا۔


میں اس کے اندر گہرائی میں جھانکنے کی کوشش کررہی تھی۔ یہ جگہ وہ تھی کہ جہاں سے سارا کریٹر صاف نظر آتا۔ 600 میٹر گہرا اور 300 کلو میٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا یہ کریٹر جس کے چاروں طرف قدرتی دیوار کھڑی تھی۔ جیسے ایک وسیع و عریض پیالہ جس کی تہہ میں دنیا کی سب سے بڑی جنگلی جانوروں کی آبادی رہتی ہے۔ جس میں جھیل و آبشار و مچھلیاں تک موجود ہیں۔


میری ایک عرصے پرانی خواہش کے پورا ہونے کا وقت تھا۔ مگر قدرت سے لڑنا میرے بس کی بات نہیں تھی۔ مجھے اپنے کندھے پر دباؤ محسوس ہوا۔ میں نے دیکھا ابو میری آنکھوں میں اتری مایوسی کو دیکھ رہے تھے۔ پھر بولے " بیٹا جی، یہ مایوسی کیوں جب کہ تم جانتی ہو کہ اس کی قدرت کے بغیر ایک پتّا بھی نہیں ہل سکتا۔ شکر کرو جو اس وقت یہاں کھڑی ہو بادلوں کے بیچ ۔ اس طرح کھڑے ہونا میری بھی بچپن کی خواہش تھی۔ مگر جب بھی میں یہاں آتا مجھے مطلع صاف ملتا اور ہر بار میں ادھوری خواہش کے ساتھ واپس چلا جاتا۔ آج میری یہ خواہش اوپر والے نے پوری کی تو تمہاری ادھوری رہ گئی۔ یہی زندگی ہے۔ اگر ہم حسب خواہش سب کچھ پالیں تو جستجو کا سفر ختم ہوجائے۔"

میں نے ان کے چہرے پر دیکھا وہاں وقت کی گردشیں نظر آرہی تھیں۔ اتنے میں ایک شور و غل کرتی ہوئی سیاحوں کی گاڑی گزری جس میں سے ایک منچلے نے زور سے آواز لگائی۔
"ہیلو۔ و۔ و۔ و۔ و۔و۔ ۔ ۔ ۔ " دور کہیں سے اسی کی بازگشت سنائی دی۔
"ہیلو۔ و۔ و۔ و۔ و۔و۔ ۔ ۔ ۔"
پھر تو ایک کھیل مل گیا حنا اور احمد کو۔ دونوں ایک دوسرے کو پکار کر کان لگا کر سنتے اور دور سے کہیں انہیں کی بازگشت انہیں سنائی دیتیں۔ امی انہیں دیکھ کر مسکرا رہی تھیں۔ ہمیں دیکھ کر ہمارے قریب آئیں اور ہم تینوں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے اس خاموشی اور سکوت کو اپنے اندر اتار رہے تھے۔ کتنا اچھا لگ رہا تھا۔
" چلیں ابو جانی ہم آگے بڑھتے ہیں۔" میں نے کہا۔
اس طرح آگے ہم اس آتش فشاں کے کشادہ سینے کی طرف رواں ہوئے جو کسی دلہن کی طرح بادلوں کے گونگھٹ میں چھپا ہوا تھا۔


 



٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭