Sunday, June 19, 2011

شمالی تنزانیہ کا ایک یادگار سفر


حصہ اول

صبح کے ساڑھے نو بجے تھے۔ سب ابھی ناشتے سے فارغ ہی ہوئے تھے اور ابھی رات کی چیزوں کی پیکنگ کرنا باقی تھی۔ مگر میں بالکل تیار کھڑی تھی اور سخت بے چینی سے ان سب کا ناشتے اور پیکنگ ختم ہونے کا انتظار کررہی تھی۔ "بس منزل اب تھوڑی ہی دور ہے" دل بار بار کہہ رہا تھا مگر اس بےچینی کو میں کیسے کنٹرول کروں جو وہاں پہنچنے کی ہے۔ ابو جانی شاید کافی دیر سے مجھے اندر باہر آتے اور سب کی پیکنگ کی رفتار پر نظر ڈالتے دیکھ چکے تھے۔ میں بور ہوکر ہوٹل کی بالکونی میں جاکھڑی ہوئی۔ دور بہت دور مجھے گور-ن-گورو کے پہاڑ نظر آرہے تھے۔ میں انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی وہ مجھ سے آنکھ مچولی کھیل رہے تھے کبھی بادلوں میں گھر جاتے۔ کبھی ایک دم صاف صاف نظر آنے لگتے۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ میں یعنی میں خود انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہوں کسی فوٹوگراف یا دستاویزی فلم میں نہیں۔ یہی تو میرا خواب تھا ایک عرصے سے کہ میں قدرت کے اس انمول نمونے کو اپنی آنکھوں سے دیکھوں۔ 


 میں نے اپنے قریب کسی کی موجودگی محسوس کی، مڑ کر دیکھا تو ابو جانی بھی دونوں ہاتھ اپنے خاکیز میں ڈالے ان پہاڑوں کو تک رہے تھے۔ مجھے اپنی طرف دیکھتا ہوا دیکھ کر مسکرا دیئے۔ پھر میرے قریب آکر کہا۔ "عینی تمہیں پتہ ہے اس وقت جو تمہارے احساسات ہیں اور ان پہاڑوں کو دیکھ کر جو تمہاری کیفیت ہے۔ وہ میں اچھی طرح سمجھ سکتا ہوں۔ تم کیوں اتنی بے چین ہو اور تمہیں وہاں پہنچنے کی اتنی جلدی کیوں ہے۔"

 
میں شرمندہ ہوگئی۔ پھر بولی " ابو جانی بس میں ایکسائٹڈ ہوں اور وہاں اس لئے جلدی پہنچنا چاہتی ہوں تاکہ زیادہ وقت ہم اس قدرت کے شاہکار کے دامن میں گزار سکیں۔" ابو میری کیفیت سمجھتے ہوئے نرمی سے مسکرائے اور کہا " بیٹا جی جب میں تمہاری عمر کا تھا تب مجھے بھی ایسی ہی بے چینی رہا کرتی تھی۔ تب میں پہاڑوں اور سرسبز وادیوں میں نکل جایا کرتا تھا پھر جا کر مجھے کچھ چین ملتا تھا۔ تم نے بھی میری طبیعت پائی ہے۔ چلو میں تم کو آج ایک پتے کی بات بتاتا ہوں۔" میں ہمہ تن گوش ہوگئی۔


وہ بولے۔ " کالج میں جب ہم یہاں اسکاوٹس گروپ کے ساتھ آئے تھے۔ تب ہمارے گائیڈ نے ہمیں یہ کہا تھا کہ صرف منزل تک پہنچنا ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔ بلکہ منزل تک پہنچنے کے راستے سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ ان راستوں کا ایک ایک پتھر، ایک ایک کھائی منزل کا پتہ دیتی ہے اور جب ہم ان راستوں کو سر کر رہے ہوتے ہیں تو بعض اوقات ہم ان کے سحر میں اتنا کھو جاتے ہیں کہ وہ خود ہی منزل بن جاتے ہیں۔" انہوں نے میری طرف دیکھا۔ میں نے ان کی بات سمجھتے ہوئے گردن ہلادی۔ میں ابو جانی کے ساتھ اندر آگئی اور پیکنگ میں ہاتھ بٹانے لگی۔اب میں ریلیکس ہوکر اس سارے کام کو انجوائے کر رہی تھی۔


اور جب راستے شروع ہوئے۔۔ ۔ ۔ اف ابو نے سچ کہا تھا۔ اونچے نیچے پرخطر راستے ۔کبھی سانپ کی طرح ٹیڑھے میڑھے نظر آتے۔ جن کے سرے پر کبھی پہاڑ تو کبھی گہری کھائیاں۔ کہیں آبشار تو کہیں پگڈنڈیاں۔ ہرے بھرے سر سبز و شاداب۔ آنکھوں کو معطر کرتے ہوئے راستے ۔ میں ان کی خوبصورتی میں کھو گئی۔ "ہاں یہ راستے اتنے خوبصورت ہیں تو منزل کتنی حسین ہوگی"۔


ابو بڑی مہارت سے لینڈ کروزر چلا رہے تھے۔ "اب چڑھائی شروع ہورہی ہے۔ یہاں سے راستہ کافی دشوار ہیں اور بارش میں تو پھسلن کی وجہ سے بہت خطرناک بھی ہوجاتا ہیں۔" ابو نے عام سے انداز میں بتایا۔ لیکن امی ڈر گئیں اور سب کو درود شریف پڑھنے کی تاکید کی اور خود بھی پڑھنے لگیں۔ جوں جوں اونچائی کی طرف سفر رواں دواں تھا توں توں راستے زیادہ تنگ اور پرخطر ہوتے جارہے تھے۔ اور موسم بھی پہلے خوشگوار سے ٹھنڈا اور پھر شدید سردی کی لپیٹ میں آگیا۔ ابو نے فوگ لائٹس آن کی اور بہت آہستہ رفتار سے آگے بڑھنے لگے۔ شکر ہے کہ بارش نہیں تھی مگر فوگ نے مشکل پیدا کی ہوئی تھی خاص طور پر سڑک کے تنگ ہونے اور سامنے آنے والی گاڑی نظر نہ آنے کی وجہ سے۔ سڑک کے ایک سرے پر بلندی تو دوسرے پر گہری کھائیاں تھیں۔ کچھ لمحے خاموش اور ٹینس حالت میں گزرے۔ سب اپنے جیکٹوں میں دبک کر فوگ چھٹ جانے کی دعا کرنے لگے کہ اچانک مطلع ایک دم صاف ہوگیا ۔ آگے کا کچھ راستہ بالکل صاف تھا۔ اور ہمیں دور سے ہی چیک پوسٹ نظر آنے لگی۔


یہاں ہم نے گاڑی کو پہاڑ کے اندر یعنی کریٹر میں داخل ہونے کی فیس ادا کی۔ اور مزید اونچائی پر چڑھنے لگے۔ اب یہاں یہ حال تھا کہ کہیں ہم بادلوں سے اوپر ہوتے اور کہیں بادل ہمارے بالکل اوپر ہوتے کہ ہاتھ بڑھا کر چھو سکتے۔ کچھ آگے جاکر سیدھا راستہ آگیا اور چڑھائی ختم ہوگئی۔ کچھ دور ایک بورڈ لگا ہوا تھا اس کے قریب ابو نے گاڑی روک دی ہم سب کچھ نہ سمجھتے ہوئے باہر نکلے۔ ابو نے کہا کہ جا کر اس بورڈ کو پڑھو۔ ہم سب بورڈ کے پاس دوڑے اس پر لکھا تھا کہ ہم پہاڑ کی بلندی پر پہنچ چکے ہیں اور یہ کریٹر کا ویو پوائنٹ ہے۔ ہم بھائی بہنوں نے کچی سڑک کے کنارے پر دوڑ لگائی اور نیچے جھانکا ۔لیکن یہ کیا!۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نیچے فوگ کہہ لیں یا بادل،سارا کریٹر جیسے بادلوں کے ڈھکن سے ڈھانپ دیا گیا ہو۔ کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ مگر یہ منظر بھی ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ایسا لگ رہا تھا ہم پانچ انسان بمعہ ہماری گاڑی بادلوں کے اوپر کہیں معلق ہیں۔ اپنے ہونے کا یقین سردی سے منہ سے نکلتی ہوں بھاپ سے ہو رہا تھا۔


میں تین ملین سال پرانے آتش فشاں کے سر پر کھڑی تھی جو کبھی شاید اتنا ہی بلند ہوا کرتا تھا جتنی کہ افریقہ کی بلند ترین چوٹی اور ہونا تو یوں چاہیئے تھا کہ بھپڑ کر پھٹتا مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا اسے یہاں ایک ایسی دنیا بسانی تھی جس میں سارے قدرتی وسائل موجود ہوں جو اس کی مخلوق کے لئے ایک "سیف ہیون" کا کام بھی انجام دے۔ جہاں دشمن کی موجودگی اور غذا اور پانی کے فقدان کا ڈر نہ ہو۔ لہذا عساء موسی کے معجزے کی مانند زمین پھٹی اور شگاف بنا پھر زمین نے وہ بھپڑتا ابلتا ہوا لاوا باہر پھینکنے کے بجائے اپنے دامن میں سمیٹنا شروع کیا اور غرور سے اٹھی اس بلند و بالا چوٹی نے کسی بوڑھے ضعیف کی کمر کی طرح جھکنا شروع کیا یہاں تک کہ درمیان سے بالکل ہی ڈھے گئی۔ اور نتیجتاً قدرت کا یہ شاہکار وجود میں آیا۔


میں اس کے اندر گہرائی میں جھانکنے کی کوشش کررہی تھی۔ یہ جگہ وہ تھی کہ جہاں سے سارا کریٹر صاف نظر آتا۔ 600 میٹر گہرا اور 300 کلو میٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا یہ کریٹر جس کے چاروں طرف قدرتی دیوار کھڑی تھی۔ جیسے ایک وسیع و عریض پیالہ جس کی تہہ میں دنیا کی سب سے بڑی جنگلی جانوروں کی آبادی رہتی ہے۔ جس میں جھیل و آبشار و مچھلیاں تک موجود ہیں۔


میری ایک عرصے پرانی خواہش کے پورا ہونے کا وقت تھا۔ مگر قدرت سے لڑنا میرے بس کی بات نہیں تھی۔ مجھے اپنے کندھے پر دباؤ محسوس ہوا۔ میں نے دیکھا ابو میری آنکھوں میں اتری مایوسی کو دیکھ رہے تھے۔ پھر بولے " بیٹا جی، یہ مایوسی کیوں جب کہ تم جانتی ہو کہ اس کی قدرت کے بغیر ایک پتّا بھی نہیں ہل سکتا۔ شکر کرو جو اس وقت یہاں کھڑی ہو بادلوں کے بیچ ۔ اس طرح کھڑے ہونا میری بھی بچپن کی خواہش تھی۔ مگر جب بھی میں یہاں آتا مجھے مطلع صاف ملتا اور ہر بار میں ادھوری خواہش کے ساتھ واپس چلا جاتا۔ آج میری یہ خواہش اوپر والے نے پوری کی تو تمہاری ادھوری رہ گئی۔ یہی زندگی ہے۔ اگر ہم حسب خواہش سب کچھ پالیں تو جستجو کا سفر ختم ہوجائے۔"

میں نے ان کے چہرے پر دیکھا وہاں وقت کی گردشیں نظر آرہی تھیں۔ اتنے میں ایک شور و غل کرتی ہوئی سیاحوں کی گاڑی گزری جس میں سے ایک منچلے نے زور سے آواز لگائی۔
"ہیلو۔ و۔ و۔ و۔ و۔و۔ ۔ ۔ ۔ " دور کہیں سے اسی کی بازگشت سنائی دی۔
"ہیلو۔ و۔ و۔ و۔ و۔و۔ ۔ ۔ ۔"
پھر تو ایک کھیل مل گیا حنا اور احمد کو۔ دونوں ایک دوسرے کو پکار کر کان لگا کر سنتے اور دور سے کہیں انہیں کی بازگشت انہیں سنائی دیتیں۔ امی انہیں دیکھ کر مسکرا رہی تھیں۔ ہمیں دیکھ کر ہمارے قریب آئیں اور ہم تینوں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے اس خاموشی اور سکوت کو اپنے اندر اتار رہے تھے۔ کتنا اچھا لگ رہا تھا۔
" چلیں ابو جانی ہم آگے بڑھتے ہیں۔" میں نے کہا۔
اس طرح آگے ہم اس آتش فشاں کے کشادہ سینے کی طرف رواں ہوئے جو کسی دلہن کی طرح بادلوں کے گونگھٹ میں چھپا ہوا تھا۔


 



٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

No comments:

Post a Comment